گلستان فکر پر چمکا جو نور عسکری
چھا گیا میرے تخیل پر سرور عسکری
سر بسجدہ ہیں عنادل گلشن افکار کے
چہچہاتے ہیں بہ لب خنداں طیور عسکری
جب کبھی دل میرا گھبرایا ہجوم درد سے
رحل دل پہ کھول لی میں نے زبور عسکری
آیتیں قرآن کی صف بستہ ہیں اندر قطار
پڑھ رہا ہوں میں حدیثوں میں سطور عسکری
بے خبری اور تغافل کا سبب ہر اک شراب
آگہی بانٹے ہےصہبائے طہور عسکری
فیض حاصل کر رہے ہیں آکے دنیا بھر کے لوگ ۔
قم میں کچھ اس طرح روشن ہے تنور عسکری
یہ فقط لمعہ ،رسائل اور مکاسب ہی نہیں
بر سر سفرہ سجے ہیں سب نذور عسکری
فکر و ضبط عسکری کی سیستانی ہیں مثال
عارض رہبر میں دکھتا ہے غرور عسکری
تھا نماز جمعہ میں ہلکا مرورِ عسکری
آڑ گیا شیطان اکبر کا فتور عسکری
طور سینا ملجاء موسی کلیم اللہ گر
سجدہ گاہ عالم عشاق طور عسکری
سوئے سامرہ، صفا مروہ کی ہوتی ہے سعی
کوہ فاراں وارے جاتا ہے حضورِ عسکری
اس لئیے سردابِ اطہر پہ ہے اک جم غفیر
منتظّر کی شکل میں ہوگا ظہور عسکری
شیخِ زکزاکی نے یہ دنیا پہ ثابت کر دیا
ضرب کاری ہے شعاروں پر شعور عسکری
ظالموں کے سامنے پھر ہے مراجع کی پکار
ہم کبھی چھننے نہیں دیں گے ثغورِ عسکری
معتمد کا کا نام بھی ملتا نہیں تاریخ میں
حکم راں پھر ہے امامت بر دہورِ عسکری
جب کبھی احساس تنہائی ہوا مجھکو نجیب
مرغ دل میرا چلا آیا حضور عسکری
از قلم: جناب نجیب زیدی